Sunday, May 12, 2019

مادر ڈے

مادر ڈے
بھی اک مخصوص دن مقرر کر دیا گیا ہے ماں کی یاد کے لیے ،یا ماں کے ساتھ کچھ وقت گزارانے کا دن
مگر میں کچھ اس طرح سے سوچتا ہوں کہ یہ دن کس لیے مقرر کیا گیا باقی دنوں میں ماں کو یاد نہیں کیا جاتا یا پھر ان کے ساتھ وقت گزارا نہیں جا سکتا
یہاں میں سوچتا ہوں مغربی دنیا کے معاشرے میں جو لوگ رہتے ہیں وہ ایک مخصوص سوچکے حامل ہو چکے ہیں ۔کہ ان کے ہاں جب بچہ بالغ ہو جاتا ہے یا اس عمر تک پہنچ جاتا کہ وہ خود کمانے کے قابل ہو چکا ہے تو وہ ماں باپ کو چھوڑ جاتا ہے اپنی گرل فرینڈ کےساتھ اپنی من پسند جگہ شفٹ ہو جاتا ہے اور ماں باپ کو ایک مقررہ دن پر یاد یا ملنے آ جاتا ہے
یہ مغربی دنیا بھی عجیب قوم ہے ماں باپ کو چھوڑ جانے کے بعد ایک دن مقرر کر دیتے ہیں ماں کا دن ،باپ کا دن ،بھائی دن ،بہن کا دن ،یہ دن ،وہ دن ،فلاں دن ،وغیرہ انہیں کیا پتہ ماں باپ کے لیے دن مقرر نہیں کیے جاتے وہ تو ہر پل یاد ہونے چاہیے وہ تو ہر پل ساتھ ہونے چاہیے ،
اور ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں یہ نظریہ نہیں تھا ماں باپ کے بنا بھائی بہن کے بنا رشتے ناتوں کے بنا نہیں رہتے ،ان کی یاد کے لیے دن مقرر نہیں کرتے ان کے ساتھ وقت گزارانے کے دن مقرر نہیں کرتے یہ ہمارے پرانے معاشرے کی ریت تھی
اور اب شاید ہم بھی جدت والی قوم بن چکے ہیں ہم پر بھی مغربی دنیا کا رنگ چڑھ گیا ہے اب ہم نے بھی رشتوں کے لیے دن مقرر کرنے شروع کر دییے ہیں
ایک وقت تھا لوگ ماں باپ کا ساتھ ترستے تھے اب بھی بہت سے لوگ ہیں مگر یہ لوگ اب شاید نا ہونے کے برابر یا زیادہ تر ویلجز میں رہتے ،
،جب ماں باپ دنیا میں نہ رہیں تو ہم ان کی یاد میں کیا کیا نہیں کرتے کیسے کسیے ان کی یاد مناتے، والدین کے جانے کے بعد ان کی قدر کا احساس ہوتا ہے لیکن جب پاس ہوں تو ہم ان کی قدر نہیں کرتے ہم ان سے زیادہ سیانے ہو جاتے ہیں
ہمارے معاشرے میں اب اولڈ ہومز بھی بنننے لگے ہیں جو کہ کبھی نام بھی نہیں سنے تھے اب خوشی سے ماں باپ کو چھوڑ کر آتے ہیں
خدارا ماں باپ کو دنوں میں یاد مت رکھیں
ان کی قدر کریں
جن کے والدین حیات ہیں انہیں ہر وقت یاد رکھیں وہ ان کی برکتیں حاصل کریں ان کا کرم حاصل کریں ان کی دعائیں حاصل کریں
اور جن کے والدین یہ دنیا فانی چھوڑ کر جا چکے ان کے لیے ہر وقت دعا مغفرت مانگتے رہیں
خدارا ماں باپ کی یاد کودنوں میں مقرر مت کرییے
والدین کوئی ایسے رشتے نہیں  ہیں جن کے دن مقرر کیے جائیں
والدین دنیا کی بہت بڑی نعمت ہیں۔
اس نعمت کی قدر کریں

فاروق شائق

Sunday, January 13, 2019

امید سحر(مسجد، امام، نمازی)


پاکستان میں جب اپنے محلے کی جامعہ مسجد میں چار(4) سال بعد نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔جب دیکھا تو دل تھوڑا پریشان ہوا اور ایک جھٹکا سا محسوس ہوا جیسے چھوڑ کر گیا ویسا ہی ملا، کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملی تو وہ یہ تھی کہ مسجد کی دیواروں پر دیدہ زیب ماربل لگا ہوا تھا۔جس پر اللہ رب العزت کے نام مبارک اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک کنندہ تھے ۔مگر جس وجہ سے پریشان ہوا اور دل کو ایک جٹھکاسا لگا وہ یہ تھا کہ جو نمازی چار سال پہلے تھے چار سال بعد آج بھی وہی نمازی تھے تعداد اتنی ہی تھی یعنی کہ 15 کے لگ بھگ صرف یہ ضرور تھا کہ کچھ پرانے چہرے گم ہو گئے تھے، جہان فانی سے رخصت ہو چکے تھے، ان کی جگہ کچھ نئے چہروں نے لے لی تھی البتہ تعداد اتنی ہی تھی(15)، ان 15میں بھی زیادہ تر بوڑھےبزرگوں کی تعداد تھی، جوان نسل بہت کم بلکے نہ ہونے کے برابر تھے،نماز کے بعد کچھ دیر سوچتا رہا کہ میرے اس چھوٹے سے گاؤں میں کم از کم 78 ووٹ تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمائندہ جماعت کے تھے، تو میری اس مسجد میں کم و بیش 50 سے 60 نمازی تو ہونے چاہیے تھے مگر تعداد تو اتنی ہی تھی جتنی چھوڑ گیا تھا یعنی 15
تو بہت دیر تک یہی سوچتا رہا کہ قصور کس کا ہے
امام کا، لوگوں کا،والدین کا یا دین کی نمائندہ جماعتوں کا ووٹ کے لیے لوگوں کو تو نکال لیا، دھرنوں کے لیے لوگ نکل آئے مگر مسجدوں میں لوگوں کی تعداد کیوں کم ہو گئی یا تقریباً اتنی ہی رہی، کہا کمی ہے
دین کی تبلیغ کی یا ہم میں شعور کی، دین کی تعلیم کی، یا، دین کی تعلیم دینے والوں کی یا دین کی تربیت کرنے والے والدین یا استاد کی یا دین کی نمائندہ جماعتوں کی جو لوگوں کو دین کے نام پر گھروں سے باہر سڑکوں پر دھرنوں میں لے آئی مگر مسجدوں میں نہ لا سکی۔
تو پھر میں سوچتا ہوں کہ قصور کس کا گردانہ جائے
مسجدوں کو دیدہ زیب سے دیدہ زیب تر، ایک دوسرے سے بڑھکر اور برقی قمقموں کی سجاوٹ خوب تر سےخوبصورت ،نقاشی کے عمدہ نمونوں سے آراستہ، رنگ وروغن کے چار چاند لگاتے جا رہے ہیں مگر ہم لوگوں کے دلوں کو دین سے منور نہیں کر پا رہے ،لوگوں کی اور اپنی اگلی نسل کی تربیت دین پر نہیں کر پا رہے ۔یہاں تک کہ ہم نے مسجدوں کو بانٹ لیا ہے۔ محلوں کی مسجد، تیری میری مسجد، برادریوں کی مسجد، مسلک کی مسجد جبکہ
ہمیں حکم ہے کہ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں مگر ہم مسجدیں بانٹ رہیں ہیں ہمیں حکم ہے ایک امام کی پیروی کرنے کا مگر ہم امام بانٹ رہے ہیں،ہمیں حکم ہے کہ آپس میں اتفاق،اتحاد سے رہنے کا مگر ہم تو نمازی ہی بانٹ رہیں ہیں،
ہمیں حکم ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا مگر ہم دین بانٹ رہیں ہیں ،ہمیں حکم ہے محبت بانٹنے کا مگر ہم نفرتیں بانٹ رہیں ہیں،ہمیں حکم ہے دلوں میں چاہت پیدہ کرنے کا مگر ہم دلوں میں کدروت پیدہ کر رہیں ہیں ۔ہمیں حکم ہے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں مگرہم دین کے نام پر بھائی بھائی بانٹ رہیں ہیں ۔ہمیں حکم ہے مل جل کر رہنے کا، مگر ہم آپس کا سکون بانٹ رہیں ہیں،ہم ایک دوسرے کی بات کو سننے جاننے کے لیے تیار نہیں،ہم خود کو دوسرے سے برتر سمجھنے کی کوششوں میں کوشاں ہیں ۔ہم میں برداشت ختم ہو چکی ہے ۔ہم دین کی بات کو پہلی بات سننے کے لیے تیار نہیں اگر سن لیں تو عمل کے لیے تیار نہیں،مفل میلاد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کتنے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں کتنے لوگ ہوتے ہیں کہ اگر مسجد میں ہو تو جگہ کم پڑ جاتی ہے اگر مسجد سے باہر پنڈال سجایا جائے تو تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں، مگر عام روٹین میں مسجد میں لوگ کم کیوں رہ جاتے ہیں ۔
میری سوچ کا محور رکنے کا نام نہیں لیتا، میری سوچ کا محورگھوم پھر کر اسی جگہ اٹک جاتا ہے کہ کس کا قصور ہے، قصور دیکھنے بیٹھوں تو سب کاہی حصہ نظر آتا ہے۔ میرا ،آپ کا ،سب کا۔
ہم پریشان حال ہیں۔طرح طرح کی مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں، ظلم کی چکی میں پیستے جا رہیں ہیں، اور جب تک ہم اپنی زندگی کو ڈھنگ سے نہیں گزاریں گے اسلام کے اصولوں کو نہیں اپنائیں گے، ہم یونہی دربدر،میصبتوں بھری غلامی کی زندگی گزارتے رہیں گے ۔
ابھی بھی وقت ہے خود کو سنبھالنے کا،ابھی بھی وقت ہے خود کو اپنی منزل کی طرف لیکر جانے کا.
ابھی وقت ہے اپنے رستے کے تعین کا ،
محمد فاروق شائق
سانگو

کورونا وائرس: جانوروں میں پایا جانے کا امکان ؟ ایک خدشہ

تاریخ بتاتی ہے کہ وبا کے دنوں میں جب انسانیت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے تو کسی اچھی خبر کی  توقع کم ہوتی ہے  مگر اس کے باوجود پاکستان ...